ولادیمیر پوتن کا پچیس سالہ دورِ اقتدار یعنی 2000 سے 2025 تک،روس کی جدید تاریخ کا وہ باب ہے جس نے ایک منتشر،کمزور اور بحرانوں میں گھِری قوم کو دوبارہ ایک متحد،با وقار اور عالمی سطح پر بااثر ریاست میں تبدیل کیا۔۔۔ یہ دور محض ایک سیاسی اقتدار کا نہیں بلکہ ایک ریاستی فلسفے کا مظہر ہے، جو نظم و ضبط، قومی خود مختاری اور طاقت کے مرکزی استعمال پر استوار ہے ۔۔۔ پوتن نے اپنے اقتدار کے آغاز سے ہی روس کو انتشار سے نکالنے،معیشت کو سنبھالنے اور ریاستی اداروں کو دوبارہ فعال کرنے کا بیڑا اٹھایا اور یہی ان کی پالیسیوں کی بنیاد بنا۔۔۔ 1990 کی دہائی کا روس سوویت یونین کے انہدام کے بعد بدترین انتشار کا شکار تھا۔۔۔ملک افراطِ زر،بدعنوانی اور اولیگارکس کے قبضے میں جکڑا ہوا تھا ۔۔۔ عوام ریاست پر اعتماد کھو چکے تھے اور روس عالمی سطح پر اپنی ساکھ کھو بیٹھا تھا۔۔۔ ایسے وقت میں پوتن نے اقتدار سنبھالا اور اپنی پہلی ترجیح کے طور پر ریاستی اختیار کو بحال کرنے پر توجہ دی۔۔۔ انہوں نے وفاقی نظام کو مضبوط کیا،گورنروں اور علاقائی قیادت کو مرکز کے تابع کیا اور فیصلہ سازی کے عمل کو ایک متحد دائرے میں لے آئے۔۔۔ انہوں نے یہ واضح پیغام دیا کہ روس میں طاقت کسی فرد،سرمایہ دار یا گروہ کے پاس نہیں بلکہ ریاست کے پاس ہو گی۔۔۔
پوتن کی اقتصادی اصلاحات نے روس کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو نئی زندگی دی۔۔۔ انہوں نے 13 فیصد فلیٹ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا، بینکنگ سیکٹر میں اصلاحات نافذ کیں اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کر کے ملک کو مالی خودمختاری دلائی۔۔۔ ان کے دور میں سرمایہ کاری کا ماحول بہتر ہوا، کاروباری نظم و ضبط قائم ہوا اور عام شہریوں کا معیارزندگی آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگا۔۔۔ توانائی کے شعبے،خصوصاً تیل و گیس کو روس کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر منظم کیا گیا اور ان شعبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ’ سٹیبلائزیشن فنڈ ‘ کے ذریعے محفوظ کر کے مستقبل کے بحرانوں کے لیے بچایا گیا ۔۔۔۔ پوتن کے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں اولیگارکس کا اثر و رسوخ ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔۔۔ پوتن نے اس خطرے کا سامنا انتہائی سختی سے کیا۔۔۔ مشہور صنعتکار میخائل خودورکوفسکی کے خلاف کارروائی اور یوکوس آئل کمپنی کے اثاثوں کی قومی تحویل اس عزم کی علامت بنے کہ ریاست کسی صورت نجی مفادات کے سامنے کمزور نہیں پڑے گی۔۔۔ اس پالیسی نے روس میں طاقت کا توازن بحال کیا اور سیاسی نظم کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔۔۔2004
سے 2008 کے درمیان تیل و گیس کی عالمی قیمتوں میں اضافے نے روس کو غیر معمولی اقتصادی استحکام دیا ۔۔۔ پوتن نے اس دولت کو عوامی فلاح، بنیادی ڈھانچے اور دفاعی منصوبوں میں استعمال کیا۔۔۔ ملک بھر میں سڑکوں، پلوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور شہری منصوبوں کی تعمیر ہوئی۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ پنشنز، صحت اور سماجی بہبود کے منصوبوں نے عام روسی شہری کے اعتماد کو مزید مضبوط کیا۔۔۔ ریاستی وسائل کا شفاف اور موثر استعمال پوتن کے نظم حکمرانی کا بنیادی اصول بن گیا۔۔۔2008 کے عالمی مالیاتی بحران نے ایک بار پھر روس کے لیے آزمائش پیدا کی مگر پوتن کی قیادت میں روس نے اس بحران کو بخوبی سنبھالا۔۔۔سٹابیلائزیشن فنڈز کے استعمال سے معیشت کو سہارا دیا گیا،بینکوں اور صنعتوں کو مالی مدد فراہم کی گئی اور عوامی اخراجات میں تسلسل رکھا گیا تا کہ سماجی استحکام برقرار رہے۔۔۔۔ نتیجتاً روس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوا اور سیاسی اعتبار سے بھی مستحکم رہا۔۔
۔پوتن نے 2009 سے 2013 کے دوران جدید صنعتی و تکنیکی ترقی پر توجہ دی تا ہم ان کے دور میں سیاسی نظم و ضبط کو ہر صورت ترجیح دی گئی۔۔۔ آزاد میڈیا، اپوزیشن جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں پر ریاستی کنٹرول سخت رکھا گیا۔۔۔ان کے نزدیک روس کی ترقی کے لیے سب سے پہلے سیاسی استحکام ضروری تھا اور اختلاف رائے کو وہ اس استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ پوتن کے نظام میں آزادی سے زیادہ نظم کو اہمیت حاصل رہی۔۔۔2014 میں کریمیہ کے الحاق کے بعد روس کو مغربی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا جہاں پوتن نے مغربی دباو کو چیلنج کیا اور خود کفالت کی پالیسی اپنائی۔۔۔ انہوں نے مقامی صنعتوں کو فروغ دیا،ایشیائی ممالک،خاص طور پر چین کے ساتھ تجارتی و دفاعی تعلقات بڑھائے اور روسی معیشت کو مغربی اثرات سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔۔۔ اس دوران روس میں قوم پرستی کا جذبہ مزید مضبوط ہوا اور عوام نے اپنے رہنما کے فیصلے کو قومی فخر کے طور پر قبول کیا۔۔۔۔2015 کے بعد روس نے اپنی خارجہ پالیسی میں واضح طور پر مشرق کی جانب جھکاو اختیار کیا۔۔۔ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات میں وسعت،علاقائی بلاکس میں شمولیت اور دفاعی تعاون نے روس کو ایک نئے عالمی توازن کا حصہ بنا دیا۔۔۔اگرچہ معاشی ترقی کی رفتار کچھ سست رہی لیکن روس مالیاتی طور پر مستحکم اور سیاسی طور پر متحد رہا۔۔۔2022 میں یوکرین پر مکمل جنگ نے روس کو عالمی سطح پر شدید دباو میں ڈال دیا۔۔۔مغربی دنیا کی بے مثال پابندیوں کے باوجو پوتن نے ملک کو ٹوٹنے نہیں دیا۔۔۔
امپورٹ سبسٹی ٹیوشن کی پالیسی تیزی سے نافذ ہوئی،دفاعی پیداوار میں اضافہ کیا گیا اور معاشرتی منصوبوں کو برقرار رکھا گیا۔۔۔ داخلی سطح پر اختلاف رائے کو سختی سے دبا کر، میڈیا اور سیاست دونوں کو کنٹرول میں رکھا گیا تا کہ ریاستی نظم متاثر نہ ہو۔۔۔پوتن کا طرز حکمرانی چند بنیادی اصولوں پر مبنی رہا، طاقت کا مرکز ریاست ہو،اقتصادی نظم و ضبط سخت ہو، وسائل کا استعمال حکمت سے کیا جائے اور بحرانوں کا سامنا پیشگی تیاری سے کیا جائے۔۔۔ انہوں نے اپنے ہر اقدام میں قوم پرستی، خود مختاری اور ریاستی وقار کو مقدم رکھا۔۔۔ یہی طرز حکمرانی روس کو 25 سال تک داخلی طور پر مستحکم اور عالمی سطح پر با اثر رکھنے میں کامیاب رہی۔۔ ۔پوتن کا یہ ماڈل ان ممالک کے لیے ایک سبق ہے جو داخلی انتشار، سیاسی عدم استحکام اور معاشی کمزوریوں سے دوچار ہیں۔۔۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ایک رہنما مثال بن سکتی ہے کہ نظم و ضبط، ادارہ جاتی طاقت، مالی شفافیت اور قومی مفاد پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے ریاستی استحکام کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟؟؟۔ اگر پاکستان بھی اسی طرز پر اپنے اداروں کو مضبوط کرے، سیاسی استحکام کو ترجیح دے اور معاشی نظم و ضبط کو اپنائے تو ترقی اور خود مختاری کا وہ سفر شروع کیا جا سکتا ہے جس کا خواب برسوں سے دیکھا جا رہا ہے۔۔۔۔پوتن کا دور حکومت اس بات کا ثبوت ہے کہ قیادت اگر عزم، نظم اور وژن رکھتی ہو تو قومیں بحرانوں سے نکل کر تاریخ میں اپنی کھوئی ہوئی جگہ دوبارہ حاصل کر سکتی ہیں ۔۔۔ روس کا عروج پوتن کے سیاسی فلسفے کا عملی اظہار ہے ، ایک ایسا فلسفہ جو بتاتا ہے کہ طاقت کا مطلب جبر نہیں بلکہ نظم ہے اور نظم ہی کسی ریاست کی اصل قوت ہوتا ہے۔