پشاور ہائی کورٹ میں سانحہ سوات کیس کی سماعت کے دوران انکوائری کمیٹی کے چیئرمین نے اہم انکشافات کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے سنگین کوتاہیاں سامنے آئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ آئندہ سات دنوں میں مکمل کر کے ذمہ داران کے نام منظر عام پر لائے جائیں گے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے چیئرمین انکوائری کمیٹی سے استفسار کیا کہ کیا واقعے کی جامع تحقیقات ہو چکی ہیں، جس پر جواب دیا گیا کہ سوات کا دورہ مکمل کیا جا چکا ہے اور رپورٹ کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔
عدالت نے کمشنر ملاکنڈ اور آر پی او ملاکنڈ کو ہدایت دی کہ وہ بھی اپنی رپورٹیں عدالت میں جمع کرائیں، جبکہ سیاحوں کی سکیورٹی سے متعلق اقدامات کی الگ رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سانحہ کے روز خیبر پختونخوا کے دونوں سرکاری ہیلی کاپٹرز صوبے میں موجود تھے اور پرواز کی صورت حال موزوں تھی، لیکن پھر بھی ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کیے گئے۔ اس پر عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے ہیلی کاپٹر کی عدم دستیابی، تاخیر اور دیگر عوامل کی جامع رپورٹ طلب کر لی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ عوامی اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا سانحے کی اصل وجوہات جاننے کے لیے تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا۔
سماعت کے دوران، چیف جسٹس نے ہزارہ ڈویژن میں سیاحوں کی حفاظت کے اقدامات پر سوال اٹھایا، جس پر کمشنر ہزارہ نے بتایا کہ دفعہ 144 نافذ ہے، تجاوزات کے خلاف کارروائی جاری ہے، اور نتھیا گلی اسپتال میں اضافی طبی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔
جسٹس فہیم ولی نے دریافت کیا کہ سوات سانحے کے بعد ایمرجنسی رسپانس کا کیا نظام بنایا گیا ہے، جس پر آر پی او ہزارہ نے بتایا کہ پولیس اور ریسکیو سروسز کے درمیان قریبی رابطہ ہے۔
عدالت نے ڈرون کے ذریعے ہنگامی ردعمل کی صلاحیت پر سوال اٹھایا، جس پر کمشنر ہزارہ نے بتایا کہ ایسے ڈرونز حاصل کیے گئے ہیں جو لائف جیکٹس بھی پہنچا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ان ڈرونز کی عملی آزمائش کی جائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں ان کی افادیت جانچی جا سکے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو مکمل اور تفصیلی رپورٹس جمع کرانے کا حکم دیا۔