اسلام آباد(ایگزو نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ جاری کیا ہے جس نے عدلیہ کے اندرونی دائرہ کار اور ججز کے اختیارات پر نئی بحث چھیڑ دی ہے، سابق ڈپٹی رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کرتے ہوئے جسٹس جمال خان مندوخیل نے یہ اصول طے کر دیا کہ کوئی جج اپنی ہی عدالت کے دوسرے جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتا،فیصلے میں کہا گیا کہ ججز کو آئین کے تحت انتظامی امور میں استثنیٰ حاصل ہے اور ان کے خلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے، اس کے سوا کوئی فورم مجاز نہیں۔
سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کمیٹی ممبران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کالعدم قرار دے دی۔ یہ فیصلہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحریر کیا جس میں عدلیہ کی انتظامی خود مختاری اور ججز کے آئینی تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کو انتظامی امور میں مکمل استثنیٰ حاصل ہے اور انہیں اندرونی و بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھا گیا ہے۔مزید کہا گیا کہ ریگولر بینچ کے 21 اور 27 جنوری کے احکامات اب موثر نہیں رہے۔عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ آرٹیکل 204 کے تحت کوئی جج اپنے ہی عدلیہ کے دوسرے جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کر سکتا۔فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے جوابدہ ہے،اس کے علاوہ کسی اور فورم پر نہیں۔یہ اصول طے پایا کہ ایک جج اپنی ہی عدالت کے دوسرے جج کو کٹہرے میں نہیں لا سکتا۔واضح رہے کہ 21 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو عہدے سے ہٹانے کا اعلامیہ جاری کیا تھا،جس میں نذر عباس کو سنگین غلطیوں کا مرتکب قرار دیا گیا تھا تا ہم موجودہ فیصلے نے عدلیہ کے اندرونی دائرہ کار اور ججز کے خلاف کارروائی کے دائرہ اختیار پر اہم رہنمائی فراہم کر دی ہے۔
ججز کو ججز کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا،سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ
7