اسلام آباد(ایگزو نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ میں ایک انوکھا گھریلو تنازع زیرِ سماعت آیا جس میں والد اور ان کے بیٹے بیٹی کے درمیان جائیداد اور خاندانی جھگڑوں پر عدالت عظمیٰ نے اہم ریمارکس دیے۔جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں وکیل نے عدالت کو بتایا کہ والد نے دوسری شادی کر لی ہے،جس کے بعد بیٹا اور بیٹی انہیں گھر سے نکالنے پر تل گئے ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ دوسری شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔اس موقع پر وکیل نے وضاحت دی کہ والد نے شادی کے بعد خود ہی گھر چھوڑ دیا تھا،بچوں نے انہیں نہیں نکالا تا ہم عدالت نے صورتحال کو گھریلو نوعیت کا مسئلہ قرار دیا اور فریقین کو صلح کی تلقین کی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سوال اٹھایا کہ بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟مکان والد کی ملکیت ہے اور وہ چاہیں تو اسے خیرات میں بھی دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر فیملی ایشو ہے جسے بات چیت سے حل ہونا چاہیے۔اس پر وکیل نے موقف اپنایا کہ والد سیٹلمنٹ پر آمادہ نہیں ہیں اور دونوں فریقین میں شدید اختلافات ہیں۔کیس میں والد کا موقف بھی عدالت کے سامنے رکھا گیا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی نے ان پر تشدد کیا اور ان کے منہ پر تھوکا،جس کے باعث وہ مزید ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے طنزیہ ریمارکس دیے کہ بیٹی ہے،کوئی پھولن دیوی تو نہیں جو والد پر حملہ کرے۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ بچوں نے اپنے والد کو بہت زیادہ ناراض کر دیا ہے جس کے باعث معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔بینچ کے رکن جسٹس صلاح الدین پنہور نے اس کیس کو گھریلو تشدد کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جائیداد پر غیر قانونی قبضے کا مقدمہ نہیں بنتا۔ان کے مطابق اصل تنازع والد اور بچوں کے درمیان تعلقات کی خرابی ہے جسے قانونی چارہ جوئی سے زیادہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔عدالت نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔مبصرین کے مطابق اس مقدمے کا فیصلہ خاندانی تنازعات میں عدالتی رہنمائی فراہم کرے گا اور یہ ایک اہم مثال بن سکتا ہے کہ عدالتیں گھریلو مسائل کو کس زاویے سے دیکھتی ہیں۔
سپریم کورٹ میں والد اور بچوں کے گھریلو جھگڑے کا کیس،دوسری شادی گناہ نہیں،بیٹا والد کو گھر سے کیسے نکال سکتا ہے؟ججز کے ریمارکس
3