راولپنڈی(ایگزو نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے خیبرپختونخوا کے علاقے میں دہشت گرد حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ملٹری آپریشنز میں جتنے بھی شہید ہوئے،ان میں عام شہری،پولیس،فوجی اہلکار اور ایک کرنل اور میجر بھی شامل ہیں۔انہوں نے شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اور کہا کہ خیبرپختونخوا میں امن کی بحالی کے لیے سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے۔
ایگزو نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل سے جاری اپنے تازہ اور تفصیلی پیغام میںعمران خان نے کہا کہ ملک پر مسلط مافیا کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی بدترین صورتحال پیدا ہو گئی ہے، پاکستان میں اس سال دہشت گردی کے ریکارڈ واقعات ہوئے ہیں جن میں جس بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ،اس کی مثال ملنا مشکل ہے، جبکہ سال کے اختتام میں ابھی دو مہینے باقی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں پہلے بھی بارہا کہہ چکا ہوں کہ خیبرپختونخوا سمیت ملک میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے چار سٹیک ہولڈرز سے بات چیت ناگزیر ہے ،جن میں خیبرپختونخوا حکومت، قبائلی علاقوں کی عوام، افغان حکومت اور افغان عوام شامل ہیں، موجودہ رجیم نے جنگ و جدل کی جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے، وہ حالات کے مزید بگاڑ کی وجہ بن رہی ہے، خیبرپختونخوا حکومت کو بارہا ہدایات دیں کہ خیبر پختونخوا میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف شروع کیے گئے غیرضروری ملٹری آپریشنز کے خلاف کھڑی ہو، ہمارے دور میں ان تمام علاقوں میں امن قائم ہو چکا تھا لیکن انتہائی دکھ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت میرے امن کے ویژن پر عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہوسکی اور اپنے آپ کو وفاقی حکومت اور سیکیورٹی ایجینسیوں کی جنگی پالیسیوں سے ایسے دور نہیں رکھ سکی جس طرح ضرورت تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسے میں خیبرپختونخوا حکومت میں تبدیلی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، میں خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ کی ذمہ داریاں سہیل آفریدی کے سپرد کرنے کا اعلان کرتا ہوں، ڈرون حملوں، جیٹ طیاروں اور مارٹر گولوں کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی انتہائی بیوقوفانہ حکمت عملی ہے، جس کے باعث ملک دہشت گردی کے منحوس چکر سے کبھی نکل نہیں پایا۔انہوں نے کہا کہ آج دہشت گردی کے واقعے میں ہونے والی شہادتوں کے بعد ہماری سیکیورٹی فورسز جواباً کاروائی کریں گی، جس کے نتیجے میں دوسری جانب سے پھر ردعمل آئے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا،ہمارے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں دہشت گردی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر تھی، باوجود اس کے کہ اس وقت افغانستان میں بھارت نواز اور پاکستان مخالف اشرف غنی کی حکومت تھی، ایسے میں، میں نے ذاتی حیثیت میں افغانستان کا دورہ کیا اور اشرف غنی کو بھی دوطرفہ تعلقات میں بہتری کیلئے پاکستان دورے کی دعوت دی،تعلقات بحالی کی عملی کوششوں اور موثر حکمت عملی کے باعث ملک میں بدامنی کے ایسے واقعات نہیں ہوئے جیسے آج ہورہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب اقتدار پر قابض موجودہ حکمرانوں نے افغانستان میں نئی بننے والی حکومت سے تعلقات کی بہتری کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا بلکہ چالیس سال کی مہمان نوازی کے بعد جس طریقے سے افغان پناہ گزینوں کو بے عزت کر کے ملک بدر کیا گیا وہ انتہائی تکلیف دہ ہے،بلاول بھٹو ایک سال سے زائد وزارتِ خارجہ کے منصب پر براجمان رہا اور تمام دنیا گھومنے کے باوجود، تاریخ کے اس انتہائی اہم موڑ پر ایک مرتبہ بھی کابل نہیں گیا اور نہ ہی افغان حکومت سے تعلقات کی بہتری کیلئے رابطہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ دیرپا قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو بڑے تناظر میں دیکھا جائے،تمام فریقین مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملات حل کریں،میں پرامید ہوں کہ خیبرپختونخوا حکومت میں تبدیلی سے نئی شروعات ہوں گی،عوامی نمائندوں،جرگوں اور قبائل سے معاونت حاصل کی جائے گی،دہشت گردی کے مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے تمام فریقین بات چیت کے ذریعے معاملہ فہمی سے دیرپا حل دریافت کریں گے،مجھے پوری توقع ہے کہ میری ہدایات کے عین مطابق نئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی میرے ویژن، قبائلی روایات اور عوامی امنگوں کی روشنی میں وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا میں امن کے بہترین فارمولے پر عمل کروانے اور دیر پا امن کے قیام میں بہترین کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔