Home » مقدر کا سکندر اور کسے کہتے ہیں؟؟

مقدر کا سکندر اور کسے کہتے ہیں؟؟

by ahmedportugal
26 views
A+A-
Reset

مسجد نبوی شریف کے پاکستانی نژاد سعودی مدرس عزت مآب قاری بشیر احمد صدیق بھی”نغمہ قرآن”گنگناتے جنت البقیع کے “بالا خانوں” کے مہمان بن گئے۔۔۔۔روضہ رسول ﷺ کے جوار میں اصحاب رسول اور آل رسول رضی اللہ عنہم کا مبارک شہر خموشاں،جہاں رحمتیں کبھی باد نسیم تو کبھی باد شمیم کے جھونکوں کی صورت جلوے بکھیرتی ہیں ۔۔ جہاں برکتیں ساون کی برکھا کی طرح موسلا دھار برستی ہیں ۔۔۔ کوئی تمنا کرے اور شہر رسول ﷺ میں زندگی بسر جائے۔۔۔ کوئی ارمان رکھے اور خاک مدینہ کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سوجائے۔۔۔ ایسا تقرب اللہ اللہ۔۔۔!!! فقیر مدینہ جناب ڈاکٹر احمد علی سراج نے قاری بشیر صاحب کو دو لفظوں میں کمال خراج عقیدت پیش کیا کہ وہ “نشان قرآن” سینے پر سجائے بارگاہ خداوندی میں پیش ہو گئے کہ جہاں اہل قرآن کو تاج پہنائے جائیں گے۔۔۔۔

قاری بشیر احمد صدیق کی مدینہ منورہ میں بیتی زندگی دو چار دن کی کہانی نہیں نصف صدی کا قصہ ہے اور قصہ بھی قرآن مجید سے عقیدت کا ۔۔ !!! یادش بخیر۔۔۔۔قاری صاحب سے 17 برس پر محیط تعلق تھا۔۔۔۔ مولانا عبدالحفیظ مکی کی طرح دعائیں دینے والے درویش ۔۔ مولانا مکی بھی دس سال پہلے اسی طرح جنت البقیع میں جا سوئے۔۔۔ دونوں ہی کمال آدمی تھے جب بھی فون کیا ۔۔۔ دعائیں دیں۔۔۔۔ قاری بشیر احمد صدیق مدینہ منورہ میں  پاکستان  کا قابل عزت حوالہ  تھے۔۔۔ جس طرح حرم کعبہ میں مولانا مکی حجازی صاحب ہیں ۔۔۔ جب بھی بات ہوتی پاکستان کا حال احوال پوچھتے ۔۔۔ پاک بھارت حالیہ جنگ سے کچھ مہینے پہلے فون کیا تو دعا سلام کے بعد پوچھا پاکستان کے حالات بتائیں ۔۔۔۔ میں  نے کہا کہ دعا کیا کریں کہ اللہ  کریم  وطن عزیز پر کرم  فرمائے ۔۔۔ کہنے لگے پاکستان  پر کرم ہی کرم ہے ۔۔۔۔ پاکستان اڑان بھرے گا اور منظر نامہ بدل جائے گا۔۔۔۔

قاری بشیر صاحب جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو کراچی پہنچتے ہی پیغام بھجوا دیتے اور لاہور پہنچ کر اپنی اقامت گاہ کا بتا دیتے ۔۔۔۔ پھر خصوصی طور پر شرف ملاقات بخشتے ۔۔۔ اب بھی کوئی ڈیڑھ مہینہ پہلے فون کیا تو کہنے لگے پاکستان کا پروگرام بن رہا ہے ۔۔۔ آپ کو آگاہ کر دوں گا ۔۔۔۔ ان شا اللہ ملاقات ہو گی۔۔۔۔ کچھ  دن پہلے ان کو فون کیا تو رابطہ نہ ہوا ۔۔۔۔ 30 ستمبر کو ان کے فون سے اطلاع ملی کہ وہ مدینہ منورہ کے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہیں ۔۔۔ یکم اکتوبر 2025 کی دوپہر ان کے دنیا سے جانے کی غمناک خبر مل گئی ۔۔۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔ قاری بشیر صاحب 3 سال پہلے لاہور تشریف لائے تو ان کے ساتھ  ڈیفنس کے ایک گھر طویل نشست ہوئی ۔۔ انہوں  نے دل کھول کر دل کی باتیں کیں ۔۔۔۔ میں  نے تب”مدینہ منورہ کے ایک قابل رشک بزرگ” کے نام سے کالم لکھا ۔۔۔ وہی کالم تلخیص کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ انہوں نے شاید کسی صحافی سے ایسی گفتگو کی ہو کیونکہ وہ شہرت سے بھاگنے والے بزرگ تھے۔۔۔۔

میں  نے لکھا کہ ہم فقیر عجم۔۔۔ ہم امیر حرم کی بارگاہ اقدس کے وہ “کشکول بردار” ہیں کہ خاک مدینہ ہی نصیب ہو جائے تو زہے نصیب،چہ جائے کہ مدینہ منورہ کے روحانی نظام سے وابستہ کسی عالی قدر نمائندہ بزرگ سے مصافحہ اور معانقہ ہو جائے۔۔۔۔ شہر رسول ﷺ سے نسبت” رتبے” بدل دیتی ہے۔۔۔۔ اوج ثریا بخشتی ہے۔۔۔ مسجد نبوی شریف کے قابل صد احترام استاد گرامی فضیلتہ الشیخ قاری بشیر احمد صدیق کے ساتھ چودہ برس کے دورانیے میں یہ چوتھی مگر طویل نشست تھی ۔۔ ۔پہلی ملاقات 2009 میں مال آف لاہور میں ہوئی ۔۔۔۔۔ میں ایک اردو اخبار کے دینی ایڈیشن کے لئے انٹرویو کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ فوٹو گرافر کو لیکر نماز فجر کے بعد ہی ان کے کمرے کے باہر جا بیٹھا انہوں  نے کچھ  دیر بعد اندر بلایا ۔۔۔۔ کھجوریں کھلائیں اور مزیدار سا مشروب پلایا ۔۔۔۔۔ پہلے گفتگو سے گریزاں تھے مگر مختصر مجلس کے دوران ہی وہ میرے مہربان بن گئے۔۔۔۔2015 میں مدینہ منورہ حاضری ہوئی تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔۔۔۔ وہ اس شب بھی مسجد نبوی میں قرآن مجید پڑھا رہے تھے۔۔۔۔۔ بڑے تپاک سے ملے اور عربی قہوہ پلایا۔۔۔اسی سال پاکستان تشریف لائے تو گلبرگ لاہور کے ایک ہوٹل میں افطاری کے بعد ان کے ہاتھ پر ایک سوشل ورکر نے اسلام قبول کیا تو باپ کی طرح نو مسلم کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔ڈھیروں دعائیں دیں، قرآن مجید ، جائے نماز اور مدینہ کی کھجوروں کا تحفہ دیا۔۔۔۔۔ اب کی بار فروری 2023 میں ڈیفنس لاہور کے ایک گھر میں ان کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی ۔۔۔۔ علالت کے باعث نقاہت تھی پھر بھی اٹھ کر گلے لگایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔۔۔ مدینہ شریف کے بزرگ بھی قسمت سے ملتے ہیں۔۔۔۔

صوفی بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب کی بات یاد آ گئی۔۔۔۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں میں نے قدرت اللہ شہاب سے پوچھا یہ بتایے کہ مدینہ منورہ میں بزرگ ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ بولے ہاں۔۔۔۔میں نے کہا مکہ معظمہ سے بھی زیادہ۔۔۔کہنے لگے ہاں غالبا زیادہ  لیکن یہ لوگ ظاہر نہیں ہوتے۔۔۔۔ میں نے بھی اس نشست میں مسجد نبوی شریف کے پچاسی سالہ شیخ القرآن کو بہت ” ٹٹولا ” مگر وہ کبھی مسکرا دیتے تو کبھی بات  ٹال دیتے ۔۔۔۔ وہ میرے سوالوں کے بڑی خندہ پیشانی سے بڑے جامع جواب دیتے رہے مگر کسی”بھید” کی خبر نہ ہونے دی۔۔۔۔۔۔۔ ۔ہاں بات بات پر ایک جملہ کہتے کہ میرا کوئی کمال نہیں جو کچھ بھی ہے یہ سب قرآن کی برکت ہے ۔۔۔۔۔ عزت مآب قاری بشیر احمد کا تعارف یہ ہے کہ انسٹھ سال سے شہر رسول ﷺ میں اقامت پذیر ہیں۔۔۔۔رہائش پذیر ہی نہیں بلکہ باقاعدہ مدینہ کے شہری ہیں۔۔۔۔

قاری صاحب کا تعارف یہ بھی ہے کہ اکتالیس سال سے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید پڑھا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ قاری صاحب کا تعارف یہ بھی ہے کہ وہ اکیاون سال سے کسی تنخواہ کے بغیر کلام اللہ کی تعلیم دے رہے ہیں ۔۔۔ انہوں نے بتایا مدینہ میں قرآن پڑھاتے چھ دہائیاں ہونے کو ہیں ۔۔۔۔ شروع کے چھ مہینے پیاز کے ساتھ بھی روٹی کھائی ۔۔۔ ابتدائی آٹھ سال مشاہرہ لیا پھر قرآن کی برکت سے کرم ہو گیا اور سعودی عرب کی شہریت مل گئی ۔۔۔۔ اب مدینہ منورہ میں اپنا گھر ہے جبکہ تیس سال سے مہمان خانہ بھی چل رہا ہے ۔۔۔۔ کہنے لگے دستر خوان خاص طور پر مدینہ منورہ کی روایت ہے ۔۔۔ مدینہ والے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ۔۔ گلے لگاتے اور کھانا کھلاتے ہیں ۔۔۔ سب خوایشیں پوری ہو گئی ہیں ۔۔۔۔ اب ایک ہی ارمان ہے کہ مدینہ میں زندگی کا انجام بخیر ہو جائے۔۔۔۔۔۔
جناب قاری بشیر احمد کا تعارف یہ بھی ہے کہ مسجد نبوی کے امام وخطیب اور مدینہ منورہ کے جج جناب عبدالمحسن القاسم اور شیخ صلاح البدیر ان کے شاگرد رشید ہیں ۔۔۔۔۔ یہی نہیں امام حرم جناب حسین آل شیخ ۔۔۔۔۔ جناب علی جابر اور جناب محمد ایوب  نے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔۔۔۔ قاری صاحب نے خود قاری فتح محمد پانی پتی، شیخ حسن ابراہیم الشاعر اور شیخ محمود خلیل الحصری ایسے جلیل القدر اساتذہ سے قرآن کا فیض پایا ۔۔۔ میں  نے پوچھا قرآن سکھاتے ساٹھ سال ہو گئے کتنے شاگرد ہیں ۔۔۔۔ کہنے لگے تعداد کا تو اندازہ نہیں لیکن اس وقت پچاس ممالک میں میرے شاگرد فروغ قرآن کے لیے کوشاں ہیں ۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی چالیس ممالک میں قرآن کا پیغام کا لیکر جا چکے ہیں ۔۔ کہنے لگے دنیا کے کونے کونے میں شاگرد ہیں اور خود دنیا گھوم لی ہے ۔۔۔ یہ سب قرآن کی برکت ہے ۔۔۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مجھے سورہ فاتحہ سیکھنے میں دو مہینے لگے ۔۔۔ سورہ فاتحہ سمجھ آ گئی تو پورا قرآن آسان ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ اتنا آسان کہ عربوں کو پڑھاتے بھی کبھی مشکل نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔ بتانے لگے کوٹ ادو، مظفر گڑھ ،ملتان،لاہور میں پڑھا پھر ساتھ کی دہائی میں مدینہ منورہ چلا گیا ۔۔۔۔۔ مدینہ جانے سے پہلے دو سال مفتی محمد شفیع کے دارالعلوم کراچی پڑھایا ۔۔۔۔ مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی  نے بھی دو سال مجھے قرآن سنایا ۔۔۔۔۔ کہنے لگے افسوس ہم نے قرآن کو چھوڑ دیاہے ۔۔۔۔ تجوید کے ساتھ ناظرہ قرآن سیکھنا واجب ہے ۔۔۔۔۔ قرآن کا حفظ نہیں تجوید لازمی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک آہ بھری اور کہا کہ عرب وعجم گھوما ہوں نوے فیصد قاری حضرات کو تجوید کے ساتھ سورہ فاتحہ نہیں آتی ۔۔۔ کہنے لگے تنخواہ لیتا ہوں نہ ساری زندگی چندہ مانگا پھر بھی ایک ریال کا مقروض نہیں ۔۔۔ ۔یہ سب قرآن کی برکت ہے ۔۔۔۔ کہنے لگے عجب رسم چلی ہے ہر کوئی” شیخ الحدیث” بنا پھرتا ہے ۔۔۔۔ شیخ القرآن خال خال ہیں۔۔۔

مجھے یاد آیا کہ پچھلے سال برادرم لاہور کے ایک قاری صاحب عمرہ سے واپسی پر میرے پاس گھر آئے ۔۔۔ باتیں کرتے ان آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔۔۔ پھر بتایا کہ قاری بشیر صاحب نے آپ کے لیے عجوہ کھجور کے علاؤہ ایک خاص تحفہ بھیجا ہے ۔۔۔۔۔ کہنے لگے شیخ مدینہ نے یہ عطر دیتے ہوئے پیغام دیا تھا کہ یہ خوشبو بڑی برکت والی ہے کہ اس نے آقا کریم ﷺ کے موئے مبارک کا بوسہ لیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ قاری بشیر صاحب نے کسی ایک نشست میں بتایا تھا کہ یہ سب قرآن کی برکت ہے ورنہ کہاں جنوبی پنجاب کے دور افتادہ گاوں کا مجھ سا دیہاتی اور کہاں شہر مدینہ ؟؟؟ سوچتا ہوں تو سر شکر سے جھک جاتا ہے ۔۔۔۔ کہنے لگے پسماندہ سے گاوں میں کھیتی باڑی کرتا تھا کہ اللہ کریم نے قرآن مجید کے صدقے اپنے محبوب ﷺ کی مسجد میں بٹھادیا ۔۔۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ کلام اللہ کی برکت سے بارہ سال مراکش کا شاہی مہمان بنا ۔۔۔ایک دفعہ شاہ مراکش  نے کہا کہ قاری صاحب بتائیں کیا چاہیے ۔۔۔۔ میں  نے کہا کچھ  نہیں چاہئیے  بس ایک خواہش ہے کہ رسول کریم ﷺ  کے شہر کا مستند مکین بن جاوں اور پھر مدینہ کی شہریت مل گئی ۔۔۔۔۔۔ اللہ کریم نے قاری بشیر احمد صدیق کو تجوید و قرآت میں وہ ملکہ عطا کیا ہے کہ عرب بھی ان کا پانی بھرتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔ رشک آتا ہے کہ جس استاد گرامی قدر کے تین چار شاگرد مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب ہوں وہ خوش نصیبی کے کس اعلی درجے پر فائز ہو گا ۔۔۔۔ نا جانے میرا دل کیوں کہتا ہے کہ مدینہ منورہ کے یہی وہ بزرگ ہیں جو ظاہر نہیں ہوتے اور قسمت سے ہی ملتے ہیں ۔۔۔۔۔ مل جائیں تو غنیمت جانیں ۔۔۔۔ آگے بڑھ کر ہاتھ چومیں اور جوتے سیدھے کریں۔۔۔
قاری بشیر احمد صدیق کے سفر آخرت  نے یہ راز بھی افشا کردیا کہ وہ مدینہ منورہ کے مقرب بزرگ تھے ۔۔۔ قاری صاحب خوش بخت ٹھہرے کہ وہ زندگی میں شہر رسول ﷺ کے شہری بھی بن گئے اور ان کی آخری خواہش بھی پوری ہو گئی کہ مدینہ منورہ میں انجام بخیر ہو جائے ۔۔۔۔ انہوں  نے مسجد نبوی شریف میں 60 سال قرآن مجید پڑھانے کے بعد 88 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں جان جان آفرین کے حوالے کی ۔۔۔ قاری صاحب کی وصیت کے مطابق امام مسجد نبوی صلاح البدیر اور ان کے شاگرد رشید شیخ صلاح البدیر نے نماز مغرب کے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں ان کی تدفین کے بعد دعا کرائی ۔۔۔ قاری بشیر احمد صدیق کی رحلت پر حرمین شریفین کے امام و خطیب ہی اشک بار نہیں حرم مسجد نبوی کے بام و در بھی سوگوار ہیں ۔۔۔ مقدر کا سکندر اور کسے کہتے ہیں؟؟

You may also like

Featured

Recent Articles

About Us

Exo News میں خوش آمدید، پوری دنیا سے تازہ ترین خبروں کی اپ ڈیٹس اور مواد تلاش کرنے میں آپ کے قابل اعتماد پارٹنر۔ ہم نے خود کو سرمایہ کاری، ہنر مند نیوز ایڈیٹرز، خبروں کی فوری ترسیل، تنوع اور امیگریشن کی تشکیل کے ذریعے خبروں اور تفریح ​​کے شعبے میں خدمات فراہم کرنے والے ایک سرکردہ ادارے کے طور پر قائم کیا ہے۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2024 ایگزو نیوز