حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ’بیک ڈور‘ اور’ فرنٹ ڈور‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔
ایکس پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ گوہر علی کی آرمی چیف سے ملاقات کی تفصیلات کا علم ہے۔ یہ نہ ملاقات تھی نہ انہیں مذاکرات کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات سے مطمئن ہے تو اپنی کمیٹی کو آگاہ کر دے۔ پی ٹی آئی کہہ دے کہ اب حکومت سے مذاکرات کی ضرورت نہیں رہی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ دو دو تین تین سطحوں پر متوازی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ بانی پی ٹی آئی نے ہمیں بدنیت قرار دیا ہے تو ہم سے مذاکرات کا راستہ کیوں چُنا ؟ انہوں نے کہا کہ جھوٹ کا پلندہ یا چارج شیٹ پی ٹی آئی کی اُن کہانیوں کو کہا جو ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ کا حصہ بنا دی گئیں۔ ججوں کی تقرری پر اعتراض کرنے والوں نے تو آرمی چیف کی تقرری پر بھی طوفان کھڑا کیا تھا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ دونوں کمیٹیوں کے دوران پہلے سے طے ہے کہ باہر کے واقعات یا کوئی عدالتی فیصلہ مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ سات ورکنگ دنوں کے اندر اندر، 28 جنوری تک ہماری کمیٹی تحریری موقف دے دی گی۔