اسلام آباد(ایگزو نیوز ڈیسک)وفاقی دارالحکومت میں سیاسی درجہ حرارت اس وقت مزید بڑھ گیا جب پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ بیانات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پہلے قومی اسمبلی اور اب سینیٹ دونوں ایوانوں سے احتجاجاً واک آوٹ کر دیا،پیپلز پارٹی نے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ جب تک وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے متنازعہ بیانات پر معافی نہیں مانگتیں،وہ کسی بھی قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
ایگزو نیوز کے مطابق سینیٹ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے سینیٹر ضمیر گھمرو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیانات وفاق کے لیے نقصان دہ ہیں،ہم ان کی سخت مذمت کرتے ہیں،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام عوام کی فلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اس پروگرام کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے۔انہوں نے کہا کہ کینال منصوبے پر پیپلز پارٹی نے اپنے اعتراضات پہلے ہی سی سی آئی میں جمع کرا دیے تھے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب نے اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے منصوبے کا افتتاح کر دیا۔پیپلز پارٹی سینیٹر نے واضح الفاظ میں کہا کہ مریم نواز کے بیانات نے ہمارے کارکنوں اور قیادت کے دل دکھائے ہیں لہٰذا جب تک معافی نہیں مانگی جاتی،ہم کسی قانون سازی میں تعاون نہیں کریں گے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے جملے ”ہمارا پانی،ہماری نہر،ہماری مرضی“ وفاقی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی دریائے سندھ کا ہے اور پاکستان کا ہے،اس پر کسی صوبے کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں حکومت کو کندھا دینے کے طعنے دیے جا رہے ہیں لیکن ہم کوئی فیس لے کر حکومتی بینچوں پر نہیں بیٹھے،اگر یہی رویہ برقرار رہا تو ہم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے سے گریز نہیں کریں گے۔نوید قمر کے بیان کے بعد پیپلز پارٹی کے تمام اراکین قومی اسمبلی سے واک آوٹ کر گئے اور ایوان کا بائیکاٹ کیا۔ادھر وزیر قانون نذیر تارڑ نے صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے الفاظ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ بڑوں کو بیٹھ کر بات چیت سے حل کرنا ہو گا۔سیاسی مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان حالیہ تناو حکومتی اتحاد کے لیے ایک بڑا امتحان بن سکتا ہے اور اگر معاملہ بروقت حل نہ ہوا تو قانون سازی اور حکومتی معاملات پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔