وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دشمن ملک پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن بھارت سندھ طاس معاہدے سے یک طرفہ طور پر دستبردار نہیں ہو سکتا۔
منگل کو اسلام آباد میں نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے دورے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے وسائل سے دیامر بھاشا ڈیم سمیت دیگر آبی ذخائر کے منصوبے مکمل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جائے گی تاکہ مستقبل میں قدرتی آفات سے بہتر طور پر نمٹا جا سکے۔
وزیر اعظم نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کو کثیرالمقاصد اہم قومی ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2022 کے سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور رہائشی مکانات متاثر ہوئے۔ ایسے حالات میں این ڈی ایم اے کی جانب سے بر وقت معلومات کی فراہمی اور خطرات سے آگاہی کے نظام کو فعال بنانے کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کے بعد این ڈی ایم اے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے تاکہ آئندہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں مؤثر اور فوری ردعمل ممکن ہو۔
سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو 1960 میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کی نگرانی عالمی بینک نے کی اور وہی اس کا ضامن بھی ہے۔
معاہدے کے تحت چھ دریاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ بھارت کے لیے مخصوص دریائے ستلج، بیاس، راوی ہیں اور بھارت کو ان دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ پاکستان سندھ، جہلم اور چناب پر کنٹرول رکھتا ہے۔
پاکستان کو ان دریاؤں کا استعمالی حق حاصل ہے جب کہ بھارت کو صرف محدود مقاصد (مثلاً پن بجلی) کے لیے ان پر کچھ تعمیری سرگرمیوں کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ معاہدے کی حدود میں ہوں۔