دوحہ(ایگزو نیوز ڈیسک)خطے میں جاری کشیدگی اور اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں قطر اور امریکہ کے درمیان نئے دفاعی معاہدے نے کئی نئے سوالات کو جنم دے دیا ہے، جہاں امریکی حکام اسے ایک “سٹریٹجک شراکت داری” قرار دے رہے ہیں،وہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں امن قائم کرنے سے زیادہ واشنگٹن کے اثرورسوخ کو مزید بڑھانے کی ایک کوشش ہے،قطر اپنی خودمختاری کے تحفظ کو اس معاہدے کی بنیاد بتا رہا ہے مگر مبصرین کے مطابق یہ اقدام ملک کو براہِ راست امریکی سلامتی پالیسیوں کا حصہ بنا سکتا ہے،جس کے خطے کی مجموعی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
ایگزو نیوز کے مطابق خلیجی خطے میں بدلتے ہوئے حالات اور اسرائیل کے تازہ حملے نے نہ صرف خطے کی سفارتکاری کو نئی سمت دی ہے بلکہ قطر اور امریکہ کے درمیان برسوں سے زیر غور دفاعی معاہدے کو بھی حتمی مرحلے میں پہنچا دیا ہے۔قطر جو امریکہ کا دیرینہ اتحادی اور خطے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کرتا آیا ہے،اب اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لیے تیار ہے۔ایسے وقت میں جب خطے میں کشیدگی انتہا کو چھو رہی ہے، یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بنیاد فراہم کرے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بھی براہِ راست متاثر کرے گا۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے روانگی سے قبل رائٹرز کو بتایا کہ یہ معاہدہ برسوں سے زیر غور تھا مگر موجودہ حالات نے اسے فوری ترجیح بنا دیا ہے۔قطر اور امریکہ کے تعلقات کی بنیاد 1992 میں پڑی تھی،جب دونوں ممالک نے پہلا دفاعی معاہدہ کیا جس کے تحت امریکہ کو العدید ایئربیس سمیت مختلف فوجی سہولتوں تک رسائی دی گئی۔وقت کے ساتھ یہ شراکت داری مضبوط تر ہوتی گئی اور 2002 میں اس معاہدے کو مزید وسعت دی گئی۔آج العدید ایئربیس مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوج کا سب سے بڑا اڈہ ہے۔مئی 2025 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قطر کے دورے کے دوران 200 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے دفاعی اور تجارتی معاہدے طے پائے تھے،جن میں 160 جدید امریکی طیاروں اور MQ-9B ڈرونز کی فروخت بھی شامل تھی۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گزشتہ ہفتے اسرائیل نے دوحہ میں حماس کے رہنماوں کو نشانہ بنایا۔قطر نے اس حملے کو اپنی خودمختاری پر براہِ راست حملہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو سخت پیغام دیا۔قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ ”یہ حملہ سٹریٹجک دفاعی معاہدے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔“
مارکو روبیو نے دوحہ میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات میں نہ صرف دفاعی تعاون پر بات کی بلکہ غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر بھی گفتگو کی۔قطر نے واضح کیا کہ اس وقت اس کی پہلی ترجیح اپنی خودمختاری کا تحفظ ہے،جس کے بغیر کوئی اور مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔امریکہ نے بھی قطر کو مکمل حمایت کا یقین دلایا۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ”اگر قطر پر کوئی حملہ ہوا تو امریکہ اس کا دفاع کرے گا۔“ انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اس یکطرفہ فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے حملے سے قبل امریکہ کو اعتماد میں نہیں لیا۔قطر طویل عرصے سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا آیا ہے تا ہم حالیہ حملے کے بعد اس کردار پر شدید دباو بڑھ گیا ہے۔اس کے باوجود قطر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ثالثی کے اپنے کردار سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔عرب اور اسلامی ممالک نے بھی قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور اسرائیلی جارحیت کو خطے میں امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے متنبہ کیا ہے کہ ”ہم حماس کے رہنماوں کو جہاں کہیں بھی ہوں،نشانہ بنائیں گے۔“یہ تمام پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ خطے میں طاقت کے توازن کی نئی صف بندی شروع ہو چکی ہے،اور قطرامریکہ دفاعی معاہدہ اس عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔