وزیراعظم شہباز شریف نے جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اُن کی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور اُن سے آئینی عدالتوں کے قیام اور ترامیم پر ساتھ دینے کا کہا۔ مگر مولانا نے حکومت کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔
قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے 224 ووٹ درکار ہیں جب کہ سینیٹ میں یہ تعداد 64 ہے۔ اس وقت حکومت کے پاس اپوزیشن کے 101 ایم این ایز کے مقابلے میں 211 ممبران ہیں یعنی حکومت کو مذکورہ آئینی ترمیم منظور کرنے کیلئے مزید 13 ووٹ درکار ہیں۔
حکمران اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ نواز (110) پر مشتمل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (68)؛ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (22); پاکستان مسلم لیگ قائد (چار)؛ استحکم پاکستان پارٹی (چار)؛ پاکستان مسلم لیگ ضیاء (ایک)؛ عوامی نیشنل پارٹی (ایک) اور بلوچستان عوامی پارٹی (ایک)۔
دریں اثنا، اپوزیشن میں سنی اتحاد کونسل کے 80 ایم این ایز شامل ہیں جنہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد قانون سازوں کی حمایت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی-ف) کے آٹھ ارکان ہیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کا ایک ایک ایم این اے ہے۔