اسلام آباد(ایگزو نیوز ڈیسک)اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی بحران نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا ہے،عدالت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو مبینہ جعلی ڈگری کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کے فیصلے تک عدالتی امور کی انجام دہی سے روک دیا ہے،چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حکم جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ جب تک ریفرنس زیرِ التوا ہے،جسٹس جہانگیری کسی مقدمے کی سماعت نہیں کریں گے،اس فیصلے کے بعد جاری ہونے والے نئے روسٹر سے ان کا نام تمام بینچوں سے نکال دیا گیا ہے جبکہ مزید معاونت کے لیے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور بیرسٹر ظفر اللہ کو عدالتی معاونین مقرر کیا گیا ہے۔
ایگزو نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ ایک بار پھر تنازعات کے گرداب میں ہے جہاں ایک جج کی مبینہ جعلی ڈگری اور چیف جسٹس کے خلاف لگنے والے الزامات نے ادارے کی ساکھ پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔عدالت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی فرائض سے روک دیا ہے اور ان کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔بظاہر یہ ایک قانونی فیصلہ ہے لیکن اس کے پس منظر میں عدلیہ کے اندرونی اختلافات اور ججز کے درمیان طاقت کی کشمکش صاف جھلکتی ہے۔جسٹس طارق محمود جہانگیری اُن چھ ججز میں شامل تھے جنہوں نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی تعیناتی سمیت سنیارٹی کے مسائل پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا،اب ان ہی کے خلاف ڈگری کی شفافیت کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے جس نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ عدلیہ کے اندر اختلاف رائے رکھنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔درخواست گزار میاں داود ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت جج کے خلاف درخواست دائر کرنے پر کوئی قدغن نہیں،چاہے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس موجود ہو۔انہوں نے سابق جج سجاد علی شاہ کی تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنایا، عدالت نے پہلے اس درخواست پر اعتراض لگایا تھا لیکن سماعت کے دوران یہ اعتراض ختم کر دیا گیا۔
مزید برآں،وکیل ایمان مزاری کی جانب سے چیف جسٹس ڈوگر پر تضحیک اور دھمکیوں کے سنگین الزامات نے صورتحال کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔حیرت انگیز طور پر وہ کمیٹی جو چیف جسٹس کی رضامندی سے بنی،اسی کی سربراہی بعد میں تبدیل کر دی گئی۔اس تضاد نے نہ صرف شفافیت پر سوال اٹھائے بلکہ عدالتی ادارے کے اندرونی نظام کی کمزوری کو بھی عیاں کر دیا۔اس سب کے ساتھ ایک وکیل نے ایمان مزاری کا لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست بار کونسل میں جمع کرا دی ہے،جس میں ان پر ریاستی اداروں کی تضحیک اور بغاوت جیسے الزامات کا حوالہ دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سب محض اتفاق ہے یا پھر طاقتور حلقوں کی منظم کوشش کہ عدلیہ کے اندر اختلافی آوازوں کو دبایا جائے اور مزاحمتی وکلاء کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے؟یہ تمام واقعات ایسے وقت میں پیش آ رہے ہیں جب عوامی سطح پر عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ایک طرف ججز کے مابین کھینچا تانی اور ذاتی اختلافات ہیں تو دوسری جانب عوام کے سامنے ایک ایسا ادارہ کھڑا ہے جو خود اپنی صفوں میں انصاف فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔یہ بحران صرف عدلیہ کی ساکھ ہی نہیں بلکہ پورے نظامِ انصاف پر عوامی اعتماد کو ہلا رہا ہے۔