اسرائیل نے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد غزہ پر حملے تیز کر دیے، جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔
اسرائیل اور غزہ پر کنٹرول رکھنے والے عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جنگ بندی کا پیچیدہ معاہدہ قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی اور 15 ماہ تک جاری رہنے والی خونریزی کے بعد بدھ کو سامنے آیا جس نے ساحلی علاقے کو تباہ کر دیا۔
اس معاہدے میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلاء کے ساتھ چھ ہفتے کی ابتدائی جنگ بندی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، جہاں 50 ہزار کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں۔ حماس کی طرف سے یرغمال بنائے گئے فلسطینیوں کو اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔
دوحہ میں ایک نیوز کانفرنس میں قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کہا کہ جنگ بندی کا اطلاق اتوار سے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کار اسرائیل اور حماس کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کے اقدامات پر کام کر رہے ہیں۔
صدر بائیڈن نے جنگ بندی معاہدے کو امریکا کی بہترین سفارتکاری قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ یہ ڈیل غزہ میں لڑائی کو روک دے گی، فلسطینی شہریوں کیلئے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ کرے گی، اور یرغمالیوں کو 15 ماہ سے زائد قید میں رہنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے دوبارہ ملا دے گی۔
جبکہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں ہونے والی اہم پیش رفت کا سہرا اپنے سر لیا ہے۔
دوسری جانب، ایک اسرائیلی اہلکار نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی منظوری اس وقت تک سرکاری نہیں ہوگی جب تک کہ اسے ملک کی سکیورٹی کابینہ اور حکومت کی جانب سے منظوری نہیں دی جاتی، اس پر آج ووٹنگ ہوگی۔