غیر قانونی امیگرنٹس:
برسلز (اسلم مراد ) یورپی یونین خصوصا شینجن ممالک میں. غیر قانونی امیگرنٹس کا بڑھتا ہوا سیلاب اب ہر ایک کو فکر مند کررہا ہے. اور اس کے لیے قوانین سخت سے سخت کیے جارہے ہیں۔
یورپی یونین کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق. سال دو ہزار چوبیس کے جنوری سے ستمبر تک نو ماہ کے دوران ایک لاکھ تیرہ ہزار سے زائد. غیر قانونی امیگرینٹس سمندری یا خشکی کے راستے سے ان ممالک میں داخل ہوئے ہیں. جس سے نمٹنے کے لیے قوانین سخت سے سخت کیے جارہے ہیں. جرمنی اور فرانس نے اپنے بارڈرز پر بائیو میٹرک نظام کے نفاز کا اعلان کیا ہے. جبکہ دوسرے ممالک نے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی سہولیات میں کمی کردی ہے۔
یورپی یونین کو اپنی سرحدوں کے پار غیر قانونی امیگریشن سے نمٹنے کے چیلنج پر بڑھتی ہوئی مایوسی کا سامنا ہے۔ یورپی یونین کے کئی ممالک سخت سرحدی کنٹرول کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ دیگر انسانی حقوق کے تحفظ اور مشکل حالات سے بھاگنے والوں کو امداد کی پیشکش کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
جیسے جیسے ہجرت کی تعداد بڑھ رہی ہے. اسی طرح رکن ممالک کے درمیان سیاسی پناہ کے متلاشیوں اور تارکین وطن کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان خدشات کو دور کرنے کے لیے، EU ان جامع حلوں پر بحث جاری رکھے ہوئے ہے جو سلامتی کو ہمدردی کے ساتھ متوازن رکھتے ہیں،
جرمنی نے اس حوالے سے قوانین کو نہ صرف سخت کردیا ہے. بلکہ افغان مہاجرین کو طالبان حکومت کے آنے کے بعد پہلی بار ڈی پورٹ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے. جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
زیادہ تر غیر قانونی امیگرنٹس سمندری راستے سے یونان اور سپین پہنچتے ہیں.