نیویارک(ایگزو نیوز ڈیسک)ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں آج سال 2025 کے نوبیل امن انعام کے حقدار کا اعلان کیا جا رہا ہے،جہاں دنیا کی نظریں ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مرکوز ہیں،ٹرمپ جو عالمی سیاست میں اپنے جارحانہ مگر غیر روایتی سفارتی طرزِ عمل کے باعث جانے جاتے ہیں،اس وقت خود کو نوبیل امن ایوارڈ کا سب سے مضبوط امیدوار قرار دے رہے ہیں،اگر قسمت نے ان کا ساتھ دیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نوبیل امن انعام حاصل کرنے والے امریکہ کے پانچویں صدر ہوں گے۔اس سے قبل تھیوڈور روزویلٹ،ووڈرو ولسن،جمی کارٹر اور باراک اوباما یہ اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔
ایگزو نیوز کے مطابق نوبیل امن انعام کے حقدار کا اعلان آج کیا جائے گا،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ایوارڈ کو پانے کے سب سے بڑے خواہشمند ہیں۔صدرٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے دور صدارت میں دنیا کے مختلف خطوں میں جاری سات بڑی جنگوں اور تنازعات کے خاتمے میں کردار ادا کیا،انہوں نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران،مصر،ایتھوپیا،آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین کشیدگی کم کرانے میں بھی فعال کردار ادا کیا،اس کے علاوہ کمبوڈیا و تھائی لینڈ،کوسوو و سربیا اور کانگو و روانڈا میں قیامِ امن کے لیے بھی کوششیں کیں۔حالیہ دنوں میں ٹرمپ کے پیش کردہ “غزہ امن منصوبے” کے تحت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے بعد دو برس سے جاری خونریز غزہ جنگ کا خاتمہ ہوا،جسے مبصرین ٹرمپ کی نوبیل دوڑ میں سب سے بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نوبیل امن کمیٹی کی حتمی میٹنگ پیر کے روز منعقد ہوئی، جس میں 338 نامزد امیدواروں پر غور کیا گیا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کم کرانے پر پاکستان نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کیا تھا۔اعلان سے چند گھنٹے قبل ایک بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر مجھے یہ انعام نہیں دیا گیا تو یہ ہمارے ملک کے لیے ایک بڑی توہین ہوگی، ان کی حکومت نے عالمی امن اور انسانی فلاح کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے، جن میں مشرقِ وسطیٰ کے ابراہام معاہدے، غزہ جنگ بندی، اور کووِڈ ویکسین کی فوری تیاری شامل ہیں۔دوسری جانب سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نوبیل کمیٹی کو اس بار ایک مشکل انتخاب کا سامنا ہے، کیونکہ 2025 کی نامزدگیوں میں کئی انسانی حقوق کے علمبردار، ماحولیاتی کارکنان اور جنگ زدہ علاقوں میں سرگرم فلاحی ادارے بھی شامل ہیں۔دنیا بھر میں یہ سوال شدت سے گردش کر رہا ہے کہ آیا نوبیل امن انعام اس بار ایک ایسے رہنما کو دیا جائے گا جو خود کئی تنازعات میں متنازع رہے یا پھر کمیٹی کسی ایسے فرد یا ادارے کو ترجیح دے گی جس کا کردار مکمل طور پر غیر سیاسی اور انسانیت پر مبنی ہوتا ہم ٹرمپ کے حامی پراعتماد ہیں کہ اس بار امن کا نوبیل انعام اسی شخص کو ملے گا جس نے جنگوں کی دنیا میں امن کا بیانیہ بدل دیا۔