اسلام آباد(ایگزو نیوز ڈیسک)ملکی معیشت ایک بار پھر قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے اور وفاقی حکومت کے مجموعی قرضے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
سٹیٹ بینک کے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2025 میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں مزید 350 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد مجموعی قرضہ بڑھ کر 78 ہزار 238 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق صرف ایک سال کے دوران قرضوں میں 8 ہزار 615 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس جولائی 2024 میں یہ قرضے 69 ہزار 623 ارب روپے تھے، یوں موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور مالیاتی انتظامات نے ایک سال کے اندر قرضوں کے حجم کو ریکارڈ سطح پر پہنچا دیا ہے۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ قرضوں میں تیز رفتار اضافہ نہ صرف مستقبل کے مالی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی اس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق قرضوں کی بڑھتی ہوئی یہ لہر محصولات میں کمزوری، بجٹ خسارے اور غیر پیداواری اخراجات کی عکاسی کرتی ہے، جبکہ حکومت اب تک اس چیلنج سے نکلنے کے لیے کوئی واضح اور مستحکم حکمت عملی پیش کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔تنقید نگاروں کا مو¿قف ہے کہ قرضوں پر انحصار کرنے سے وقتی ریلیف تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن معیشت کی بنیادیں مزید کمزور ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس پائیدار معاشی اصلاحات، ٹیکس نیٹ میں وسعت اور غیر ضروری اخراجات پر قابو پانا ہی وہ اقدامات ہیں جو قرضوں کے بوجھ کو کم کر سکتے ہیں۔وفاقی حکومت کے لیے یہ اعدادوشمار سخت چیلنج ہیں، کیونکہ قرضوں کا یہ بڑھتا ہوا پہاڑ نہ صرف معیشت کے لیے خطرہ ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت قرضوں کی اس دلدل سے نکلنے کے لیے کوئی جامع اور مو¿ثر لائحہ عمل پیش کر پائے گی یا پھر یہ سلسلہ اسی طرح ملکی مستقبل کو گروی رکھتا رہے گا؟۔
قرضوں کا پہاڑ آسمان کو چھونے لگا،حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے
6