دنیا ایک بار پھر اضطراب میں ہے ۔۔۔ کہیں بموں کی گھن گرج ہے،کہیں بچوں کے رونے کی آوازیں فضا میں گونجتی ہیں اور کہیں مائیں اپنے بیٹوں کے بے جان جسموں پر بین کر رہی ہیں ۔۔۔ سیاست دان امن کی بات کرتے ہیں،عالمی فورمز انصاف کے وعدے کرتے ہیں مگر زمین پر سچائی اس کے بالکل برعکس ہے ۔۔۔ امن صرف تقریروں میں ہے،انصاف صرف قراردادوں میں اور مظلوموں کے حصے میں آئی ہے خاموشی ۔۔۔ طویل، گہری اور ظالمانہ خاموشی ۔۔۔ یہ کیسی دنیا ہے جہاں طاقتور کا ظلم ” دفاع “ کہلاتا ہے اور کمزور کی فریاد ” دہشت گردی “ ؟ جہاں ایک بم کے نیچے دب جانے والے بچوں کے خون کو ” کولَیٹرل ڈیمیج “ کہا جاتا ہے؟ یہ وہ دور ہے جہاں انصاف کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے، جہاں قانون طاقت کے تابع ہے اور سچائی مفاد کی قید میں ۔۔۔۔ اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر امن کے پرچم لہراتے ہیں مگر اندر مفادات کے سودے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ دنیا کے بڑے ممالک جب ” انسانی حقوق “ کی بات کرتے ہیں تو ان کے الفاظ میں خلوص نہیں،سیاسی چال چھپی ہوتی ہے ۔۔۔ طاقتور کی غلطی ” سٹریٹیجک فیصلہ “ بن جاتی ہے اور کمزور کی مزاحمت ” غیر قانونی کارروائی “ قرار پاتی ہے ۔۔۔۔
مسلم دنیا کے زخم اس تصویر کا سب سے دردناک حصہ ہیں۔۔۔ فلسطین کے جلتے گھر، شام کے اجڑے شہر، یمن کے بھوکے بچے، افغانستان کے بے گھر خاندان ، یہ سب گواہ ہیں کہ دنیا کی عدالت میں مسلمانوں کے لیے انصاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔ ہر بار ایک ہی منظر دہرایا جاتا ہے،ایک حملہ، چند مذمتی بیانات ، ایک دو اقوام متحدہ کے اجلاس اور پھر سب کچھ معمول پر۔۔۔۔ مگر افسوس،مسلم دنیا خود بھی اس زوال کی شریک ہے ۔۔۔ کبھی ہم ایک اُمت تھے، ایک آواز تھے ۔۔۔ آج ہم سیاست، سرحدوں، مسلکوں اور مفادات میں بٹ چکے ہیں ۔۔۔۔ ہم نے قرآن کے ” اُمت واحدہ“ کے تصور کو پس پشت ڈال دیا ہے۔۔۔ جنہیں قیادت کرنی تھی، وہ مصلحتوں کے اسیر ہو گئے۔۔۔ ہمارے رہنما تقریروں میں غیرت کے نعرے لگاتے ہیں مگر عملی میدان میں خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔۔۔ ہم نے اپنی ترجیحات بدل لی ہیں ۔۔۔ انسانیت کے بجائے اقتدار، اتحاد کے بجائے انانیت اور اصول کے بجائے مفاد ۔۔۔ ہماری خاموشی نے ظلم کو جواز دیا، ہماری کمزوری نے دشمن کو طاقت بخشی ۔۔۔ وہ قوم جو کبھی رحمة للعالمین ﷺ اور عدل فاروقیؓ کے اصولوں پر دنیا کو راہ دکھاتی تھی، آج خود راستہ بھٹک چکی ہے ۔۔۔ یہ وقت سوال پوچھنے کا ہے، کیا دنیا میں کبھی کوئی ایسا رہنما پیدا ہو گا جو سچ بولنے کی ہمت رکھتا ہو؟ جو انصاف کو سیاست پر فوقیت دے؟ جو طاقت کے بجائے انسانیت کے لیے فیصلے کرے؟ اگر کبھی ایسا شخص ابھرا تو یقیناً وہی نوبل امن انعام کا اصل حق دار ہو گا ۔۔ نہ کہ وہ جو امن کی تقریریں کرے اور پس پردہ جنگ کے سودے طے کرے۔۔۔
دنیا کو اب نعرے نہیں، کردار چاہیے ۔۔۔ ایسے رہنما درکار ہیں جو ہر جان کو یکساں اہمیت دیں ۔۔۔ چاہے وہ نیو یارک کا شہری ہو یا غزہ کا بچہ۔۔۔ جو سمجھیں کہ امن کسی ایک قوم یا خطے کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کی سانس ہے ۔۔۔ اگر مسلم ممالک ذاتی مفادات اور وقتی سیاست سے اوپر اٹھ جائیں، اگر وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مشترکہ موقف اپنائیں ، اگر وہ اپنی دولت اور وسائل کو اسلحے کے بجائے تعلیم، سائنس اور فلاح انسانیت پر صرف کریں تو یقین مانئے، دنیا کا منظر بدل سکتا ہے۔۔۔۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی صفوں سے خوف اور مفاد پرستی کو نکالیں۔۔۔ ہمیں وہ جرات پیدا کرنی ہو گی جو سچ کہنے سے نہ ڈرے ۔۔۔ وہ قیادت جو دنیا کے دباو سے آزاد ہو اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے ۔۔۔۔ امن کا مطلب کمزوری نہیں ، شعور ہے۔۔۔ طاقتور وہ نہیں جو بم پھینکے بلکہ وہ ہے جو ظلم روکنے کی ہمت رکھتا ہو ۔۔۔۔ سیاست وہ نہیں جو کرسی بچانے کے لیے ہو بلکہ وہ ہے جو انسانیت کو بچانے کے لیے ہو ۔۔۔۔ دنیا اس وقت ایک موڑ پر کھڑی ہے ۔۔۔ یا تو ہم سچائی اور انصاف کا راستہ اپنائیں گے یا پھر خود اپنی تباہی کے گڑھے میں گر جائیں گے ۔۔۔۔۔ اگر ہم نے اب بھی اپنا آپ نہ بدلا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی ۔۔۔۔ سوچیں،اگر ایک غزہ کی ماں اپنے بیٹے کے جنازے پر رو رہی ہے تو وہ صرف اپنی نہیں، پوری انسانیت کی ہار پر رو رہی ہے ۔۔۔ اگر شام کا بچہ خوف میں کھیلتا ہے تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔۔۔۔ اگر افغانستان ، یمن یا کشمیر کے لوگ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا ابھی تک جاگی نہیں ۔۔۔۔۔ اب وقت ہے کہ ہم خواب سے حقیقت کی طرف قدم بڑھائیں ۔۔۔۔ انصاف کو طاقت سے آزاد کریں اور امن کو صرف نعرہ نہیں بلکہ نظام بنائیں۔۔۔۔ جب ہر مظلوم کی فریاد سنی جائے گی ، جب ہر جان برابر اہم سمجھی جائے گی، جب قیادت طاقت کے نہیں بلکہ ضمیر کے تابع ہو گی ۔۔ تب ہی انسانیت سکھ کا سانس لے سکے گی۔۔۔۔تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے۔۔۔۔ تب ہی دنیا کہے گی ۔۔۔ انصاف واپس آ گیا ہے۔